کالونائزیشن اور وی پی این کی فائنل کال

استعمار کے قبضہ گروپ کو مختلف علاقوں کی ایج آف ڈسکوری میں استعماری اور نوآبادیاتی نظام کے نام سے پکارا گیا۔ جسے مختلف براعظموں میں گلوبل قبضہ گروپ ایج آف ڈسکوری کہتے رہے تاریخ نے اُسے استعماری اور نو آبادیاتی نا م سے یاد کیا ہے۔ ابتدا میں ان مہمات کو پرتگالیوں نے لیڈ کیا۔ پرتگالیوں کی توسیع پسندانہ فتوحات یا قبضہ مہمات 1415ء میں شروع ہوئیں‘ جس کا آغاز آبنائے جبرالٹر سے ہوا۔ پرتگالی لٹیرے جہاں گئے دولت اور وسائل لوٹنے کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور ظلم کی نئی داستان چھوڑ آئے۔ دوسرے نمبر پر برٹش کالونائزیشن آتی ہے جسے تاریخ نے یورپین استعماری نظام کا نام دے رکھا ہے۔ برطانوی استعمار نے امریکی استعمار کا آزمودہ ماڈل اپنایا تھا۔ اُسی ماڈل کے ذریعے فرنگی نے برصغیر ہند پر قبضہ جمایا۔ اس کالونائزیشن کی رونمائی مغل شہنشاہ محی الدین محمد کے ابا جی کے زمانے میں ہوئی۔ تب‘ جب برطانوی شہزادوں اور تاجروں کی ایک ٹولی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے مرچ مصالحہ خریدنے آئی اور ہمارے پاور ہاؤسز میں گھس کر بیٹھ گئی۔ بادشاہ مرزا شہاب الدین محمد خرم 1628ء سے1658ء تک کنگ آ ف دی ورلڈ‘ یعنی شاہِ جہاں کے نام سے انڈیا کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ شاہ جہاں کے تیسرے بیٹے محی الدین محمد کا سیلف سٹائل نام اورنگزیب عالمگیر تھا‘ جس نے اپنے ابا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے سارے بھائیوں کو چن چن کر قتل کیا تاکہ لائن آف تھرون میں اس کے اقتدار کوکسی سے خطرہ باقی نہ رہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ استعماری جبروت کے نظام‘ وی پی این اور فائنل کال میں کیا قدرِ مشترک ہے۔ ہمیں ذرا گہرائی میں دیکھنا پڑے گا۔ اس وقت وطنِ عزیز کی 77سالہ تاریخ میں پہلی بار اختلافی آوازوں‘ اظہارِ رائے کے ذرائع اور ہر طرح کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو درباری اور سرکاری علما کی طرف سے شیطانی چرخے بنا کر کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟ ظاہر ہے اس کا سیدھا مطلب 25کروڑ لوگوں کے مستقبل کے حوالے سے اصل قومی ایشوز سے توجہ ہٹانا ہے۔ مثال کے طور پر:
آئی ایم ایف نے پاکستان کے قرض خور مافیا کی طرف سے ساڑھے سات ارب ڈالر قرض کی فرمائش پر کچھ پابندیاں یا شرائط عائد کر دیں۔ ان میں سے بڑی شرط کے مطابق رواں مالی سال میں واجب الادا ساڑھے 26ارب امریکی ڈالر بیرونی قرض کو لازماً رول اوور کرانا تھا تاکہ بیلنس آف پیمنٹ کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔ مگر ایک خطرناک پیش رفت یہ ہوئی کہ سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے تقریباً ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کے کُل قرض کو (ن) لیگی حکومت رول اوور کرانے میں ناکام ٹھہری۔ شہرِ اقتدار کے انتہائی مقتدر ذرائع بتاتے ہیں کہ ایک قرض خواہ نے اپنے قرضوں کو مؤخر کرانے کے بدلے ریکوڈک منصوبے میں 15فیصد حصہ دینے کی ڈیمانڈ کی ہے۔ بلوچستان حکومت کے ماہرین کی رپورٹس کے مطابق ریکوڈک منصوبے کی کُل مالیت تقریباً 600ارب ڈالر بنتی ہے۔ 15فیصد حصے کا مطلب 90ارب ڈالر کی بھاری رقم ہے‘ جو صرف ڈیڑھ ارب ڈالر کے احسان کے بدلے پاکستان کو دینا پڑیں گے۔ یادش بخیر مرحوم ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور میں پہلی مرتبہ کارپوریٹ فارمنگ کی اصطلاح سامنے آئی تھی‘ جس کے پس منظر میں جنرل مشرف نے ایک مغربی بینک سے شوکت عزیز کو ادھار لے کر وزیراعظم بنوا دیا‘ کیونکہ پردے کے پیچھے پہلی مرتبہ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر اُسی ملک نے پاکستان سے 10لاکھ ایکڑ زرعی زمین مانگی‘ وہ بھی 99سال کی لیز پر جس کے ذریعے متعلقہ ملک اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈی میں اجناس فروخت کرنے کا منصوبہ رکھتا تھا۔ اُن دنوں میں پارلیما ن کا ممبر تھا‘ جہاں پہ بہت شور اُٹھا اور مشرف حکومت کو دیہی اور زمیندار بیک گراؤنڈ رکھنے والوں کی طرف سے سمجھایا گیا کہ شوکت عزیز ایسا بابو ہے جسے زراعت کا ککھ پتہ نہیں۔ غیرملکی بے دریغ کیمیائی کھادیں استعمال کرکے فوری منافع بنائیں گے اور اُسے لے کر رخصت ہو جائیں گے مگر ہماری زمینوں کو بنجر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ایک زرعی سکالر کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں کے مطالبات بھی اس سے ملتے جلتے ہیں‘ جبکہ پہلے ہی ایک عرب ملک 100 ایکڑ زمین پر خاص قسم کے مچھلی فارمز بنائے بیٹھا ہے اور اس نے بھی 900ایکڑ مزید زمین کا مطالبہ کیا ہے۔ سادا مطلب یہ ہوا زمین آپ کی‘ زرعی مزدور آپ کا لیکن فصل کسی اور کی۔ وہ بھی ایسے قرض کے بدلے جس سے کسان‘ زرعی مزدور اور عام آدمی کو ٹیڈی پیسے کا کوئی فائدہ کبھی نہیں پہنچا۔ ہماری وزارتِ خزانہ The Extended Fund Facility کی جو کہانی سناتی ہے اس کا خلاصہ آپ نے پڑھ لیا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا خمیازہ بھی آپ اور ہم بھگتیں گے۔
بدہضمی کا علاج لندن سے اور نزلے کا تریاق جہاں سے ملا اسے المانی زبان میں دی شوایدز‘ فرینچ لینگویج میں لاسویسے‘ اطالوی میں لاسویزے را اور سرکاری زبان میں سوئس کنفیڈریشن کہا جاتا ہے۔ ریاست کے منیجرز ترقی اور استحکام کے فارمولے ڈھونڈنے کے لیے امریکہ‘ برطانیہ‘ سویٹزر لینڈ اور عرب ملکوں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں مگر حرام ہے کہ ان کی نظر اپنی مٹی اور اس کے وسائل پر پڑے۔ پاکستان کی ورک فورس پر ان کا نہ دھیان ہے‘ نہ اعتماد مگر فکر کی کوئی بات نہیں‘ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننے کے بعد لاسویزرا بننے سے اب کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ ہم سب کو مراعات اور تنخواہ یافتہ اسلامی نظریاتی کونسل پر فخر کرنا چاہیے جس نے ترقی اور استحکام کے سب سے بڑے دشمن وی پی این کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دنیا کے لاعلم اور بیوقوف سائنسدان یقینا حیران ہوں گے کہ وہ گلوبل ویلج اور امن کے اصل دشمن وی پی این کو کیوں نہیں پہچان سکے۔ یہ سائنسدان تو شہباز سپیڈ کو بھی نہ پہنچ سکے جس نے وی پی این کے حرام قرار پانے سے فوراً پہلے امریکی الیکٹ صدر کے پھٹے چک دیے۔ جی ہاں پھٹے۔ شہباز شریف نے پوری سپیڈ سے وی پی این نکالا‘ اس کے ذریعے ٹویٹر اکاؤنٹ کھولا اور صدر ٹرمپ کو مبارک باد ٹھوک دی۔ اتحادی حکومت ہو اور بلاول اپنے سینئر پارٹنر سے پیچھے رہ جائیں‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ موصوف نے امریکی صدر ٹرمپ اور اس کی فیملی سے اپنے خاندانی تعلقات کا دعویٰ کر دیا۔
اب آئیے عمران خان کی فائنل کال کے متاثرین کے ماتمی دستوں کی طرف‘ جو سارے مسائل کا باعث پاکستان کی نوجوان نسل کو سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نسل ان کا ہر لکھا ہوا حرف اور ان کے سارے ٹاک شوز بہت پسندیدگی سے دیکھتی ہے۔ اس لیے وہ عمران خان کی سیاسی تحریک کو ڈی ریل کرنے کے اہل ہیں۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کپتان کا بولا ہوا ایک جملہ پوری سرکار کو ہلا کر رکھ ریتا ہے۔ اس کا ایک فیصلہ جو وہ کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر کرتا ہے‘ سب کی دوڑیں لگوا دیتا ہے۔ کپتان ماسٹر سڑوک لگا رہا ہے۔ میں نے وی پی این فتوے سے پہلے گیارہ نومبر کے وکالت نامے میں اسی صفحے پر لکھا تھا: ”پی ٹی آئی کے خلاف نئی بھرتیاں ہوئی ہیں۔ کوئی رہ تو نہیں گیا‘ اسے بھی بھرتی کر لو‘‘۔ ان بھرتیوں سے آغا شورش کاشمیری کا ”حفظِ ماتقدم‘‘ یاد آگیا؛
کیا چاہتے ہو اور عزیزانِ محترم
لے دے کے ایک سر تھا اسے بھی جھکا لیا
افسوس! مفتیانِ تقدس مآب نے
اپنے دلوں سے خوفِ خدا بھی اٹھا لیا

اپنا تبصرہ لکھیں