”اللہ تعالیٰ مرنے والوں کو جوارِ رحمت میں جگہ دے، اُن کے لواحقین کو صبر دے، اللہ تعالیٰ انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے“ یہ دعائیہ کلمات اُس وقت کہے جاتے ہیں،جب بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی اُلٹنے کا واقعہ ہوتا ہے ، اُس وقت فوری طور پر کابینہ کا اجلاس بلایا جاتا ہے، جن میں ہر بار یہی دعائیہ کلمات کہے جاتے ہیں اور ساتھ ہی وہاں سے لاشیں منگوانے کے لیے پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے کی منظوری دی جاتی ہے۔ الحمدللہ یہ پریکٹس ہم گزشتہ دو تین دہائیوں سے کر رہے ہیں، ،، لیکن اس بارے میں کوئی سوچ بچار نہیں کی جاتی کہ جب بھی ایسا کوئی سانحہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہی کیوں ہوتی ہے؟ اور کیا کبھی اس پر کسی نے سنجیدگی سے کوئی ایکشن لیا کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پاکستانی ملک چھوڑ کر کیوں جانا چاہتے ہیں ،،،خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگرحالیہ واقعہ جس 40سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں نے ایک بار پھر ہم سب کو افسردہ کر دیا ہے، ایسی ایسی کہانیاں سامنے آرہی ہیں کہ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ویسے ہمارے وزیر اعظم کے مطابق جاں بحق افراد کی تعدا دصرف پانچ ہے،،، جبکہ یونانی کوسٹ گارڈز نے سمندر میں لاپتہ افرد کے حوالے سے ریسکیو آپریشن کو ختم کرکے لاپتہ افراد کو بھی مردہ قرار دیا ہے،،،تبھی یہاں سے چارٹرڈ طیارہ ان کی میتیں لینے کے لیے روانہ ہو چکا ہے،،، جبکہ اس کے علاوہ آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ لیبیا میں ابھی بھی کم وبیش 5 ہزار پاکستانی موجود ہیں اور یورپ جانے کے خواہشمند یہ افراد مختلف پاکستانی ولیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہیں۔جن کے بارے میں اچھی خبریں نہیں آرہیں۔
اورپھر تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ ان 40مرنے والوں میں ایک 13سالہ عابد بھی تھا ،،، جبکہ لیبیا میں موجود 5ہزار افراد میں سے 100سے زائد کم عمر بچے بھی ہیں، جو یورپ جانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ رجحان ان بچوں کو سوشل میڈیا سے مل رہا ہے، اور مرنے والوں کے لواحقین سے اگر پوچھا جائے کہ انہوں نے انسانی سمگلروں کے ہاتھوں اپنے بچے کی موت کا پروانہ کیوں بھیجا تو اُن کا ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ ”بچے کی ضد کے آگے وہ ہار گئے تھے“ جبکہ دوسری طرف آپ ان انسانی سمگلروں کو دیکھ لیں، جو اربوں روپے کا غیر قانونی انسانی کاروبار کر رہے ہیں۔ میں نے ایک دوست وزیر سے اس بارے میں استفسار کیا کہ کیا حکومت ان ایجنٹوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی ، یا کوئی کارروائی نہیں کرتی، تو وہ کہنے لگے کہ کشتی ڈوبنے یا کسی حادثے کے فوری بعد ”اوپر“ سے ان ایجنٹو ں کے خلاف محدود کارروائی کا پیغام ملتا ہے، کچھ دن انہیں حراست میں رکھا جاتا ہے، واقعہ ٹھنڈا ہونے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ہے، اور پھر لواحقین جو دشمنی مول نہ لینے کی وجہ سے ان ایجنٹوں کے خلاف گواہی نہیں دیتے تو ویسے ہی کیس ختم کر دیا جاتا ہے۔ دوست کا کہنا ہے کہ ہم لوگ کابینہ کے اجلاس میں خوب واویلا کرتے ہیں کہ یہ ایف آئی اے اور پولیس کی نااہلی ہے، لیکن ساتھ ہی دونوں اداروں کو احکامات بھی جاری کر دیتے ہیں کہ انسانی سمگلرز کے خلاف کریک ڈاﺅن بھی کریں۔ جبکہ ساتھ ہی یہ بھی کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے کہ ان ایجنٹوں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کے لیے بل لایا جائے گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ لیکن کچھ دن بعد سب کچھ روٹین میں آجاتا ہے۔
اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ایف آئی اے حرکت میں نہیں آتی،،، بلکہ وہ اپنی تازہ ریڈ بک لہراتی ہے جس میں انسانی سمگلروں کے نام درج ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ ہم کتنی جانفشانی سے اس سنگین مسئلے کے گڑھ (بالخصوص وسطی و شمالی پنجاب) میں موجود ناسوروں اور اُن کے گاو¿ں گاو¿ں پھیلے چیلے چماٹوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، گرفتار کر رہے ہیں، پرچے کاٹ کر رہے ہیں، تفتیش تیز کر رہے ہیں۔لیکن حالات یہ ہیں کہ گزشتہ سال 174کیسوں میں سے صرف چار کیسز میں ملزمان کو سزا ہوئی۔ باقی 172کیسز یا تو زیر التواءہیں یا ختم کر دیے گئے ہیں۔ اور جن پر سے کیسز ختم ہوتے ہیں وہ دوبارہ 25سے 40لاکھ روپے فی نوجوان لے کر اور انہیں یورپ کے خواب دکھا کر سادہ لوح عوام کو ورغلانے میں دوبارہ مگن ہو جاتے ہیں۔ اور پھر سادہ لوح لوگ یہی کہہ کر اپنے بچوں کو ان ایجنٹوں کے حوالے کردیتے ہیں کہ موت برحق ہے، جہاں بھی آجائے! حالانکہ ایسا کرنا خودکشی کرنے یا قتل کرنے کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں اگر ان ایجنٹوں کی پشت پر کوئی طاقتور سیاسی یا ادارہ جاتی ہاتھ نہ ہو تو یہ پورا نیٹ ورک کبھی نہیں چلا سکتے، مگر کیا کیا جائے، یہ اربوں روپے کا دھندہ ہے اور اس حمام میں حمام والے سے لے کر گاہک تک سب ننگے ہیں۔
بہرحال ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ کابینہ کیا فیصلے کرتی ہے کیا نہیں لیکن ہمیں اس بات کا علم ضرور ہے کہ ان حالیہ دس سالوں میں کشتی ڈوبنے کے 221سے زائد چھوٹے بڑے واقعات ہو چکے ہیں جن میںمرنے والوں میں بیشتر تعداد پاکستانیوں ہی کی تھی ۔ ویسے تو میرے مذکورہ بالا دوست وزیر کا یہ بھی کہنا بالکل درست ثابت ہوا کہ حکومت غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں پر زیادہ سختی اس لیے بھی نہیں کرتی کیوں کہ یہ پاکستانی باہر جا کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں اور سالانہ 30سے 35ارب ڈالر تک پاکستان بھیجتے ہیں جس سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔
پھر ایسی صورت میں حکومت کیوں چاہے گی کہ ان کو روکے اور ویسے بھی بیورو آف ایمی گریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ءمیں آٹھ لاکھ 62 ہزار 625 لوگ بیرونِ ممالک روزگار کے لیے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ 2022ءمیں آٹھ لاکھ 32 ہزار 339 افراد روزگار کے لیے بیرونِ ملک گئے۔ جبکہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد ان اعدادو شمار سے الگ ہے، جن کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ باہر جا رہے ہیں تو کیا ضرورت ہے ملک میں کاروبار سیٹ کرنے کی؟ یا معیشت کو سیٹ کرنے کی۔ اس وقت موجودہ حالات میں نوجوان طبقہ جو پہلے ہی سیاسی حالات سے سخت مایوس دکھائی دیتا ہے ، وہ بے روزگار ہے، اُسے سنبھالنے اور کارآمد بنانے کی اشد ضرورت ہے، ہمارے فیصلہ کرنے والوں کو یہ ماننا ہوگا کہ ملک میں طویل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں، توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے کے باعث مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ اور اس اضافے کے نتیجے میں کارخانے اور فیکٹریاںبند ہو رہی ہیں۔مقامی سطح پر تیار ہونے والے پراڈکٹ چائنہ کے مال سے مہنگی پڑ رہی ہے، تبھی یا تو تاجر برادری چین شفٹ ہو رہی ہے یا بنگلہ دیش۔ لہٰذا یہ سارے عوامل مل کر بیروزگاری، مہنگائی اور عوام کی قوتِ خرید میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت ایسی ہی بے یقینی کا شکار ہے۔ بڑے تو مایوس ہیں ہی‘ نوجوان بھی مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے لیے جائز طریقے سے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی مایوسی انہیں غیر قانونی طریقے استعمال کر کے بیرونِ ملک جانے پر اُکساتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ غیرقانونی سفر کتنا تکلیف دہ اور مشکل ہوتا ہے۔
میرے خیال میں سب اچھا ہے کی خبریں دینے والوں کو چاہیے کہ وہ عوام کو گمراہ نہ کریں اور درست طور پر بتائیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ معیشت ٹھیک ہو رہی ہے اور آہستہ آہستہ ٹیک آف کی پوزیشن پر آ رہی ہے‘ لیکن حقیقت میں یہ ترقی دراصل ترقی نہیں‘ ترقی معکوس ہے۔ جو تھوڑی بہت ترقی ہو رہی ہے وہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی مستقبل کو گروی رکھ کر کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے پر شادیانے بجانے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ یہ قرضے کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی نے ادا بھی کرنے ہیں۔ کیسے ادا ہو گا‘ کون ادا کرے گا یہ قرض؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فروری میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوتا، اور جس کا مینڈیٹ بنتا تھا اُسے حکومت تھما دی جاتی۔ لیکن ہم نے پورا ایک سال اسی کام میں لگا دیا کہ تحریک انصاف کو دہشت گرد تنظیم کیسے دکلیئر کرنا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کسی کو اس چیز کی فکر نہیں ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اگر سارے زرخیز دماغ دوسرے ممالک کو فائدہ پہنچانے چلے گئے تو پاکستان کے لیے کیا باقی بچے گا؟اور پھر کیا کسی نے سوچا ہے کہ ایک خاندان اگر 13سالہ بچے کو بیرون ملک اچھے مستقبل کے لیے بھیج رہا ہے تو آخر ایسی نوبت ہی کیوں آئی؟
درحقیقت ہماری 25کروڑ عوام صحیح معنوں میں رُل رہی ہے، اور حکمران صرف دعاﺅں سے کام چلا رہے ہیں،،، اور سوچ رہے ہیں کہ اگر ہر سال اوسطاً ساڑھے آٹھ لاکھ قانونی اور نامعلوم تعداد میں غیر قانونی راستوں سے چند لاکھ لوگ چلے بھی جائیں، اُن میں سے ایک تہائی یا آدھے راستے میں مر کھپ بھی جائیں یا بیچ راہ میں لاپتہ ہو جائیں، لگ بھگ 25 ہزار لوگ خلیجی و غیر خلیجی ریاستوں کی جیلوں میں سالہا سال قید رہیں اوراُن میں سے چند سو کے سر قلم بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
بہرکیف حکومت کو اپنے ملک میں ہی روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے،معیاری تعلیم، مناسب روزگار، جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دینے والا بہتر مستقبل نہ ہونا کوئی سانحہ نہیں۔ اصل سانحہ امید کا دم توڑ جانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی سمگلنگ کا مستقبل تاحدِ نگاہ شاندار ہے۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی راہ سے موت کے منہ میں جائیں، آپ کی لاش بذریعہ پی آئی اے گھر واپس لانا ریاست نے پچھلے بیس برس سے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔اور پھر ہمارے وزراءآپ کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں،،، کیا یہ آپ کے لیے کافی نہیں ہے؟