کیا وفاق نہیں چاہتا ”کرم“ میں امن قائم ہو؟

”اگر زندہ رہے تو ضرور ملیں گے“ یہ جملہ ویسے تو بسا اوقات سنتے بھی ہیں اور کہتے بھی ہیں۔ مگر یہ الفاظ ہمارے ایک مرحوم دوست ، ساتھی اور کولیگ کے تھے جو ڈیڑھ ماہ قبل پارہ چنار میں گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے واقعہ میں جاں بحق ہوگیا۔ اس دوست نے لاہور سے اپنے آبائی علاقے پارہ چنار جاتے ہوئے بڑی گرمجوشی کے ساتھ یہ کلمات بار بار دہرائے تھے۔ وہ کئی سالوں سے اپنے علاقے میں جاتا اور پھر کام کی غرض سے لاہور آجاتا، میں اس بار خاصا پریشان بھی ہوا کہ وہ ایسا بار بارکیوں کہہ رہا ہے، اور اگروہاں اتنا ہی خطرہ ہے تو وہ جا کیوں رہا ہے؟ بعد میں اُن کے ایک عزیز نے بتایا کہ اُن کے خاندان والے اُن سے کئی ماہ سے ناراض تھے کہ وہ ملنا ہی نہیں چاہتے، اور ساتھ وہ اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے لیے خاصا پرجوش تھا۔ لیکن دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اور یہی نہیں بلکہ اُس واقعہ میں 100سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور یہ حالیہ مہینوں میں اکیلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک دہائی میں اس قسم کے درجنوں واقعات ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ جی ہاں! یہ بھی پاکستان ہی کا ایک علاقہ ہے، جو خیبرپختونخواہ کا ضلع ”کرم “ کی تحصیل پارہ چنار ہے۔
ویسے تو آپ کو اس حوالے سے خبریں آرہی ہوں گی کہ کرم میں تمام دھڑوں فرقوں کے امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں، جبکہ اس مسودے پر گزشتہ ہفتے دستخط بھی ہو ئے تھے، اور ایک صلح نامہ بھی منظر عام پر آیا تھا ، جس میں تمام فریقین کے دستخط بھی تھے،جبکہ اس کے اگلے روز یعنی ہفتے کو پارہ چنار کے لیے ادویات اور اشیائے ضروریہ کا 80گاڑیوں پر مشتمل قافلہ بھی روانہ بھی ہونا تھا لیکن عین وقت پر امن معاہدے اور امن کمیٹی کی یقین دہانیوں کے باوجود ضلع کرم کے علاقے بگن میں 40سے50کی تعداد میں مسلح افراد نے سرکاری مذاکراتی ٹیم پر فائرنگ کردی۔اس حملے میں ڈپٹی کمشنر سمیت تین پولیس اور دو فرنٹیئر کور کے اہل کار گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگئے۔یقیناً حملہ آوروں کو جائے واردات تک پہنچنے کی سہولت حاصل تھی۔ اس واقعہ کے بعد بھی مذمتوں سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔ اور تادم تحریر کرم کی مین شاہرہ پر 50سے زائد چیک پوسٹوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس سے وہاں کے شہریوں میں ایک بار پھر بے چینی پھیل گئی۔ کیوں کہ اس سے پہلے تو ویسی ہی مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ وادی کرم تک کھانے پینے اور ادویات کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے شہری ایک بار پھر مایوس ہو گئے ہیں، یہاں خوراک پہنچانا کارگل کی پہاڑیوں پر تعینات فوجیوں کو خوراک پہنچانے کے مترادف بن چکا ہے، جدید ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت تباہ ہوئے گھروں سے بے گھر ہوئے گھرانے معصوم بچوں سمیت سخت سردی کے اس موسم میں کھلے آسمان تلے کپکپارہے ہیں۔لیکن حکمران مذاکرات مذاکرات کے کھیل میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
ویسے تو آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد امن وامان یقینی بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وادی کرم اب ”قبائلی علاقہ“ بھی نہیں رہابلکہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں ضم ہوچکا ہے۔لیکن اگر امن کی بحالی میں صوبے ناکام ہیں یا اُن کے پاس ضروری وسائل نہیں ہیں تو اس معاملے میں ہمیشہ وفاق مدد کرتا رہا ہے، نہیں یقین تو سوات میں حکومتی رٹ کی بحالی کو چیک کر لیں کہ 2007ءمیں آپریشن کی منظوری کس نے دی تھی۔ لہٰذااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون چاہتا ہے کہ امن قائم نہ ہو؟ کیا وفاق ایسا چاہتا ہے؟ کیا مقامی افراد چاہتے ہیں ؟ یا وہ لوگ چاہتے ہیں کہ جن کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے، مگر وہ پاکستان آسانی سے بارڈر کراس کرکے آتے جاتے رہتے ہیں۔ یا وہ ممالک چاہتے ہیں جو پاکستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتے، ان میں افغانستان بھی ہو سکتا ہے اور انڈیا بھی۔ افغانستان اس لیے کیوں کہ کرم تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس کے 45 فیصد علاقے افغانستان کے اندر تک ہیں۔ مثال کے طور پر پارا چنار اور پیواڑ وہ علاقے ہیں، جو افغانستان کے اندر ہیں۔ پیواڑ سے تو رات کو افغان شہر جلال آباد کی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں، جبکہ خود پارا چنار، جن علاقوں میں گھرا ہوا ہے، ان میں کارا خیلہ، تولہ، نستی کوٹ، لقمان خیل، زیران، ملانا، شلوزان، برکئی سمیت دیگر علاقے ہیں اوپر جائیں تو تری منگل ہے، جہاں طالبان کا آنا جانا لگتا رہتا ہے۔ ان علاقوں میں سنی اکثریت ہے۔پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔”کرم“ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
اب وہاں پر جب بھی کبھی لڑائی جھگڑے کا چھوٹا موٹا واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہاں پر گھُس بیٹھیے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتے ہیں، جیسے بقول شخصے حال ہی میں ایک شیعہ شہری کی انتقالی زمین کیساتھ 30 کنال شاملاٹ کی اراضی تھی۔ اس 30 کنال اراضی پر ہمسایہ قبضہ کرنا چاہتا تھا اور اس کا جھگڑا کافی عرصے سے چل رہا تھا۔ ان دونوں افراد کی خاندانی دشمنی کافی پرانی ہے۔ اس جلتی پر تیل یوں ڈالا گیا کہ چونکہ زمین ہتھیانے کی کوشش کرنیوالا سنی اور جس کی ملکیت ہے، وہ شیعہ ہے۔ تو یوں، اس سنی نے علاقے کے سنی علماءسے مدد مانگی کہ ”آپ کا سنی بھائی، شیعوں کے ”ظلم“ کا شکار ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں“، اس پر مولوی کی ”اسلامی غیرت“ جوش میں آئی اور اس نے نہ صرف سپیکر میں اعلان کر دیا بلکہ کچھ مسلح گروہوں سے رابطے کرکے انہیں بھی بلوا لیا اور یوں ایک ٹکڑا زمین کی لڑائی، شیعہ سنی جنگ میں بدل گئی۔ اس لڑائی کا آغاز بوشہرہ اور مالی خیل گاوں کے قبائل میں شروع ہوا، جوکافی پھیل گیا۔ ڈیڑھ ماہ میں اس وقت تک 130 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 300 سے زائد زخمی ہیں۔ پاراچنار میں شاہراہ ہر قسم کی آمد و رفت کیلئے بند ہے، پارا چنار میں شاہراہ بند ہونے اور مسلسل جھڑپوں سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔اس لڑائی میں بھاری اسلحہ استعمال کیا جا تارہا ہے۔ میزائل اور مارٹر گولے تک داغے جا رہے ہیں۔ مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے۔
بہرحال یہ مسئلہ عوام اور ریاست کے لیے مسئلہ کشمیر یا مسئلہ فلسطین بنتا جا رہا ہے، اور اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے مشیران، وفاقی حکومت اور اداروں کا کردار بھی مشکوک ہے۔وہ اس لئے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وفاقی حکومت یہ کہنے کی پوزیشن میں آئے گی کہ تحریک انصاف سے صوبہ سنبھالا ہی نہیں جا رہا ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت اور سوچ ہے۔ جس کی مذمت کی جانی چاہیئے۔ وفاق پورے ملک کا ذمہ دار ہے۔ اگر پاراچنار جل رہا ہے تو وفاق کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، یہ سوچے بغیر کہ وہاں کس کی حکومت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔ پارا چنار میں جاری یہ تصادم بہت خوفناک ہے، اسے فوری نہ روکا گیا تو اس آگ کی تپش پورے ملک میں پھیل سکتی ہے۔
کیوں کہ بقول میرے مرحوم دوست کے جب حالات ”سازگار“ تھے، اور امریکا افغانستان میں بیٹھا تھا تو اُس وقت اس علاقے میں ڈالرز کی ریل پیل تھی، افغان طالبان بارڈر کراس کر کے یہاں آتے اور ڈالرز میں اشیاءخریدتے تھے، جس کی وجہ سے مقامی لوگ بھی خوشحال تھے، لیکن جیسے ہی باڑ لگی، تو عوام کے روزگار میں بھی کمی آئی تبھی عوام کا ایک خاص طبقہ حکومت کے خلاف ہوگیا اور غیرملکی افراد کے ساتھ مل کر سازشوں میں مصروف ہوگیا۔ خدشہ ہے کہ یہ وہی طبقہ ہے جو غیر ملکیوں کا سہولت کار بنا ہوا ہے، اور یہ نہیں چاہتے کہ یہاں امن قائم ہو۔ اور پھر اس جنگ میں شدت اُس وقت آتی ہے، جب افغانستان سے طالبان آکر ایک خاص فرقے کو مدد فراہم کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ افغانستان سے آنیوالے طالبان کو مبینہ طور پر افغان حکومت اور بھارت دونوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ بھارت دراصل پاکستان میں بدامنی کو فروغ دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ گلگت بلتستان ہو یا بلوچستان، کرم ایجنسی ہو یا ملک کے اندر احتجاجی سیاست، کہیں نہ کہیں بھارت کی مداخلت ضرور نظر آجاتی ہے۔ ضلع کرم میں جاری اس حالیہ خوفناک جنگ کے تانے بانے بھی دہلی سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
بہرکیف اگر حکومت اور مشیران چاہیں تو ایک لمحے میں مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ امن قائم ہوسکتا ہے، مگر وہ خود نہیں چاہتے کہ امن قائم ہو۔کیوں کہ ریاست کا کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ حالانکہ وہاں کے مقامی افراد کی اگر بات کریں تو پارا چنار کے شیعہ سنی متحد رہنا چاہتے ہیں۔ وہ جنگ کے مخالف ہیں۔ وہ تو آپس میں رابطے میں بھی ہیں، امن کیساتھ رہنا چاہتے ہیں، وہ وحدت کے خواہاں ہیں، لیکن یہ خفیہ ہاتھ ہے، جو وہاں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بدامنی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس خفیہ ہاتھ کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔ جس نے دو خاندانوں کی لڑائی کو شیعہ سنی لڑائی کی بنا پر پورے ریجن میں آگ لگا دی ہے۔ پورا پاکستان مطالبہ کر رہا ہے کہ بیگناہ لوگوں کی قتل و غارت کو روکا جائے، املاک کو نقصان سے بچایا جائے۔ لیکن افسوس کہ وفاقی حکومت بھی خاموش ہے۔جبکہ اس کے برعکس دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں الجھانے کیلئے ایسے واقعات کو سپورٹ کرتا ہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ پاکستان دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا، اس حوالے سے دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان میں احتجاجی مظاہرے ہوں، توڑ پھوڑ ہو، قتل و غارت ہو اور بیرونی سرمایہ کار خود بخود بھاگ جائیں۔ ہمیں اپنے وطن کی سلامتی کیلئے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ اس میں تاخیر ملک کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں