ستمبر کو تو ستمگر کہتے ہیں، تاہم سال عیسوی کا آخری مہینہ بھی کئی حوالوں سے یادگار ہے،پاکستانی عوام بانی پاکستان کے یوم پیدائش کی خوشی مناتے ہیں تو عیسائی/ مسیحی دنیا بھر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو کرسمس کے طور پر یاد رکھتے اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں،بعض حضرات کے لئے یہ مہینہ کئی اور حوالوں سے یادگار ہو گا،اِسی لئے میرے لئے ماہِ دسمبرکی حیثیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔یہ مہینہ میری اپنی پیدائش کا ہے اور 12دسمبر کو (سکول سرٹیفکیٹ کے مطابق) میں اِس دنیا میں بھیجا گیا تھا تاہم جو کسک دِل میں اُٹھتی ہے اس کا تعلق اِس مہینے کے آخری ہفتے سے ہے،جب مجھے بیک وقت اپنی اہلیہ اور پاکستان کی دو بار والی وزیراعظم بے نظیر بھٹو یاد آتی ہیں،اتفاق یہ بھی ہے کہ ہر دو کی یاد کا تعلق 27دسمبر ہی سے بنتا ہے،کہ اہلیہ بھی27دسمبر ہی کے دن والے حادثے اور اس سے پہلے جلسے سے متعلق ہی یاد آتی ہیں۔ سترہ سال پہلے ہم دونوں اپنے گھر میں بیٹھے، لیاقت باغ کے جلسے کی سکریننگ دیکھ رہے تھے،محترمہ بے نظیر بھٹو خواتین میں بھی بہت مقبول تھیں،جلسہ میں کی جانے والی تقریر اور بی بی کے اندازکو میں نے بڑے غور سے دیکھا اور سنا،تاہم میری اہلیہ اس روز محترمہ کی شخصیت کے حوالے سے بہت متاثر اور اُن کے روپ کی تعریف کر رہی تھیں،پھر جلسہ ختم ہوا،بے نظیر بھٹو لیاقت باغ کے عقب کی طرف سے روانہ ہوئیں، وہ جاتے جاتے عوامی نعروں کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دے رہی تھیں،اسی لمحے میری بیگم نے بے ساختہ کہا، ”دیکھو میاں صاحب! حور لگ رہی ہے“ یقینا اس روز بی بی کا روپ بہت ہی نکھرا ہوا تھا، وہ بہت صحت مند اور خوش نظر آ رہی تھیں اور اُن کا چہرہ سرخ تھا،خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی،محترمہ کے گلے میں گندھا ہوا پھولوں کا موٹا ہار اپنی بہار دکھا رہا تھا۔
کسے علم تھا کہ یہ سب چند لمحوں کا کھیل ہے اور پھر یاد ہی باقی رہ جائے گی،وہ ہاتھ ہلا کر تحسین کا جواب دیتے دیتے، سیڑھیاں اُتریں اور پھرگاڑی میں سوار ہو کر واپس روانہ ہوئیں،اس کے چند ہی لمحوں بعد وہ کچھ ہو گیا،جس نے میرے پیارے ملک پر بھی گہرے اثرات چھوڑے، کیمرے نے واپسی کے شاٹ دکھائے، کوئی ہجوم پُرجوش تھا،نعرے لگا رہا تھا، بی بی گاڑی کے چھت والے کور سے باہر نکل کر کھڑی ہو گئیں،اطمینان اور خوشی کے جذبات کے ساتھ نعروں کا جواب دینے لگیں،پھر وہ ہو گیا جو نہ ہوتا تو ہی اچھا تھا۔ایک دم دھماکہ ہوا،گاڑی کے آگے دھواں پھیل گیا، وہ گاڑی کے اندر گر گئیں،اس موقع کی فوٹیج میں واضح نظر آتا ہے کہ دو پستول یا ریوالور بردار حضرات گاڑی کے قریب آ کر نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم دھماکہ کے بعد کی صورتحال خبروں کے تسلسل میں تھی اور بتایا جا رہا تھا کہ محترمہ زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئی ہیں، اور پھر وہ خبر بھی بریک ہو گئی جس نے لاکھوں کو رُلا دیا تھا،میری اہلیہ کی زبان پر ایک ہی ورد تھا، بے نظیر حُور تھی، بے نظیر پر رنگ و روپ نکھرا نظر آ رہا تھا وہ موت کی نشانی بن گیا،اس کی آنکھیں بھی نم زدہ نظرآئیں، یوں میرے لئے یہ دن بامعنی ہو کر رہ گیا اور ہر سال کسک ہوتی تو اپنی بیگم بھی یاد آ جاتی ہے جو خود بھی اب اِس دنیا میں نہیں،عالم ارواح کا احوال ہم مٹی کے پتلے کیا جانیں۔ممکن ہے میری اہلیہ کی شدت اسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے لے گئی ہو، یہ سب کامل قدرت والا اللہ ہی جانتا ہے،ہم مٹی کے پتلے کیا جانیں، ہم تو اتنا ہی جانتے اور سمجھتے ہیں جتنا ہمارے پیارے پیغمبر آخر الزمان نبیؐ نے ہم تک پہنچایا۔27 دسمبر کو تو فاتحہ خوانی ہوتی ہی ہے لیکن اس سے پہلے بھی یہ واقعات فلم کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں اور یادیں امڈ امڈ کے آتی ہیں۔
آج ہم جن حالات سے گذر رہے ہیں۔اس میں ان سانحات کا بہت بڑا حصہ ہے یہ حادثہ عظیم تھا اور لیاقت باغ جلسے سے پہلے بھی اس سے بڑا حملہ ہو چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو تمام تر خدشات، تحفظات اور دھمکیوں کے باوجود وطن واپس آئیں اور شاہکار سانحہ کے باوجود ان میں اتنا حوصلہ تھا کہ منع کرنے کے باوجود بھی وہ انتخابی مہم سے دستبردار نہ ہوئیں کہ بالآخر وہ دن آ گیا جب ان سے یہ دُنیا چھین لی گئی۔اگرچہ ازلی حیات تو ان کا مقدر بنی ہی۔ وہ عالم ارواح/برزخ میں ہیں اور ملک کے حالات دیکھ ر ہی ہیں تو کس کرب میں مبتلا ہوں گی وہی جانتی ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت کاسانحہ ہی اتنا بڑا ہے کہ اس کے سامنے اس روز (27دسمبر) کے باقی حالات گم ہو کر رہ گئے، ورنہ جس روز لیاقت باغ میں محترمہ تقریر کررہی تھیں تو محمد نواز شریف بھی ایک ریلی کی قیادت کر رہے تھے اس پر بھی حملہ ہوا، فائرنگ ہوئی اور دو افراد جاں بحق ہوئے۔نواز شریف لیاقت باغ کے عقب میں ہونے والے دھماکے کا سن کر اپنی ریلی ختم کر کے ہسپتال پہنچ گئے تھے جہاں ان کو یہ معلوم ہو گیا کہ محترمہ اللہ کو پیاری ہو چکیں، پھر بوجوہ وہ سکیورٹی والوں کی درخواست پر چلے آئے تھے،جبکہ محترمہ کی شہادت کا اعلان بھی ہو گیا اور عوام سکتہ زدہ ہو کر رہ گئے، جہاں جہاں جو ردعمل ہونا تھا اور اس کے بعد جو عمل ہوا وہ بھی اب سامنے ہے،لیکن اگر کچھ نہیں ہوا تو محترمہ کی شہادت کے اصل واقعات اور کردار سامنے نہیں آئے اور یہ ہماری روا یت ہے۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کے قتل کا بھی تو اب تک سراغ نہیں ملا، قاتل سید اکبر کو پہلی قطار میں جگہ کس نے دی اور پھر اُسے زندہ گرفتار کرنے کی بجائے، اعلیٰ پولیس افسر نے وہیں گولی مار کر کیوں مار دیا؟اِس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔
اِسی طرح بے نظیربھٹو کے سانحہ پر بھی اِدھر اُدھر کے پردے پڑے ہوئے ہیں،قانون کی رو سے پوسٹ ما رٹم ضروری ہوتا ہے وہ کیوں نہ ہوا؟ بی بی کو سب سے پہلے طبی امداد دینے والے ڈاکٹر حضرات کی زبان پر تالہ بندی کیوں؟یہ بھی کوئی نہیں بتاتا، یہ کہا جاتا ہے کہ خود کش دھماکہ سے محترمہ گریں تو ان کی کنپٹی چھت والے لیور سے ٹکرائی اور وہی ان کی وفات کا سبب بنی،میں اس کو نہیں مانتا، مجھے رہ رہ کر جان ایف کینیڈی (امریکی صدر) کے قتل پر وارن کمشن کی طویل رپورٹ یاد آتی ہے، جس کی رو سے کینیڈی کو ٹارگٹ کلر نے عمارت کی چھت سے نشانہ بنایا، ہمارے تحقیق کنندگان نے سرے سے اِس پہلو کا ذکر ہی نہیں کیا اور لیور کی چوٹ پر ہی یقین کر لیا، حالانکہ نواز شریف کی ریلی پر فائرنگ کے نتیجے میں دو کارکنوں کی موت اور محترمہ کی شہادت کے درمیان بھی تعلق کی تفتیش ہونا چاہئے تھی۔ پھر میں تو ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان کے بیان کا منتظر ہوں جو وہ سانحہ کے شاہد ہونے کی بناء پر روشنی ڈالنے کے لئے دیں۔
اسلامی دنیا کی اِس پہلی وزیراعظم کے حوالے سے اتنی یاد داشتیں ہیں کہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، میرے پیشہ وارانہ فرائض کے دورن ان کے ساتھ قریبی رابطے رہے اور بعض آف دی ریکارڈ بے تکلفانہ ملاقاتیں بھی یادگار ہیں،بعض تفصیلات تو اب بھی آف دی ریکارڈ ہیں،اگرچہ بہت سی باتیں پہلے لکھ چکا ہوں۔
آج میری توجہ اپنے ملکی حالات، بی بی کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی طرف ہے،یہ نوجوان والدہ کی تربیت کا حق ادا کرنا چاہتا ہے، انہی کی طرح انسانیت والی سوچ وفکر ہے لیکن اس کی راہ میں وہی پتھر ہیں جو والدہ محترمہ شہید کی راہ کھوٹی کرتے تھے، ان پتھروں کو آج تک کوئی صاف نہیں کر پایا اور ملک اب بھی اس شعر کے مطابق ہی چلا جا رہا ہے۔
انہی پتھروں پہ چل کر، تم آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اللہ ہمیں ان سنگریزوں سے نجات کی راہ پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اِسی حوالے سے حالیہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مذاکرات کی کامیابی کے لئے دُعا گو ہوں۔